تہہ خانہ


میں نے ٹٹول کر دیوار کا سہارا لیا۔ اور پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیا۔

آہستہ آہستہ احتیاط سے دو سری سیڑھی۔۔۔ پھر تیسری ۔۔۔

ہر طرف گھپ اندھیرا تھا عجیب سی بو ہر طرف پھیلی تھی سیلن جیسی۔۔

بہت ڈرؤانا احساس ہورہا تھا ۔

 

میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔’’ناہید‘‘ میرے کانو ں سے جمشید کی آواز ٹکرائی

ہاں‘‘ ۔۔ ’’ہاں‘‘۔۔۔ میں نے تڑپ کر پکارا ۔

’’ناہید‘‘۔ جمشید نے مجھے دوبارہ پکارا ۔اس کی آواز میں عجیب تکلیف تھی۔

سخت کرب ۔۔

اور پھر میری انکھ کھل گئی ۔

میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔ سارا جسم پسینے میں بھیگا ہو تھا ۔

بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گھسیٹ کر میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔

میرے سر میں جیسے دھماکے ہورہے تھے ۔

 

40 اف‘‘۔ میں نے اپنا سر ہاتھوں میں تھا م لیا ۔’’40 سال ‘‘ میں نے سوچا ۔

 سال ہوگئے ۔ مگر جمشید کی آواز آج بھی مجھے اس طرح محسوس ہوتی ہے

جیسے اس نے ابھی پکارا ہو۔ میری انکھوں میں آنسو آگئے۔

اور یہ خواب نہ جانے 40 برسوں میں کتنی مرتبہ میں یہ خواب دیکھ چکی ہوں؟

تقریباً "اس طرح اسی انداز کے خواب مجھے آج تک نظر آتے ہیں"

 

جمشید اور وہ ۔۔۔ وہ تہہ خانہ ۔۔۔

 

یہ بہت پرانی بات ہے۔ تقریباً 40 سال پرانی میری عمر اس وقت کوئی 16-15  برس تھی۔ پاکستان بنے چند سال ہی ہوئے تھے ۔

 

پاکستان آکر ہم سکھر میں آباد ہوگئے تھے ۔ یعنی میں میرے بڑے بھائی راشد اور اماں ابّا یہاں جو گھر ہمیں الاٹ ہو ا تھا وہ’’ سیتا مندر ‘‘ سے تقریباً جڑا ہوا تھا ۔

 

اصل میں یہ پورا محلہ ہندؤں کا تھا۔ وہ انڈیا ہجرت کر گئے اور وہاں سے آنے والے مسلمان کو یہ گھر الاٹ ہوگئے ۔

 

چھوٹے چھوٹے پرانی وصتع کے گھر ہمیں جو گھر ملا وہ چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا ۔

چھوٹا سا صحن اور چھت ۔

مگر کمروں کے عقب میں ایک تہہ خانہ موجود تھا۔ نہ جانے وہ کس مقصد کے تحت بنویا گیا تھا ۔ کیونکہ چند سیڑھیا ں اترنے کے بعد اس کی

 

باقی سیڑھیاں مکمل طور پر پانی سے دوبی ہوئی تھیں ۔

 

اس وجہ سے اس میں کوئی سامان وغیرا توبالکل نہیں رکھا جا سکتا تھا ۔

نہ جانے وہ کتنا گہرا تھا کیونکہ اگر اس میں کوئی پتھر پھینکا جاتا تو اس کی کے زمین سے ٹکرانے کی آواز نہیں آتی تھی۔

 

محّلے کے لوگ جو مہینوں برسوں سے رہ رہے تھے ان میں اُس تہہ خانے کے متعلق پر اسرار اور مہینوں مشہور تھیں۔ کچھ کا کہنا تھا اس تہہ

 

خانے سے ایک سرنگ سیتا مندر کے اندر تک جاتی تھی ۔ عین سیتا دیوی کی مورتی کے نیچے۔

 

کیونکہ کے مندر کے اندر سیتا دیوی کی مورتی والہ کمرہ مستقل بند رہتا تھا۔ اس کا تالہ صرف بڑے پجاریوں کی زیرنگرانی ان کے خاص دنوں

 

پر ہی کھلتا تھا۔

 

مستقل پانی کھڑا رہنے سے تہہ خانے میں ایک عجیب بو سی ہوئی تھی۔

 

اس گھر میں شفٹ ہوتے ہی ابا نے نے تہہ خانے کی کنڈی اچھی طرح بند کردی تھی۔ا ور مجھے اور راشد بھا ئی کو سختی سے ہدایت کردی تھی کہ ہم اس کے اندر نہ جائیں۔ راشد بھائی مجھ سے عمر میں چند پرس بڑے تھے۔ شرارتوں سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔مگر لڑکی ہونے کے باوجود میں بہت شراتی تھی اور اکثر اپنی سہیلیوں کے ساتھ تہہ خانے کی کنڈی کھول دیتی۔ ہم اس کے اندر جاتے۔ مختلف تبصرے کرتے

 

اور اس کے بارے میں سنی سچی اور من گھڑت باتیں کرتے۔

اس گھر میں آنے کے ۲ سال کے بعد ہماری امّاں کا انتقال ہوگیا۔ وہ کچھ عرصے سے بیمار تھیں۔

ان کے انتقال کے بعد ہماری رشتے کی پھوپھی۔ حمیدہ ہمارے ساتھ رہنے لگیں ان کے زیادہ رشتے دار انڈیا میں ہی رہ گئے تھے۔ وہ بہت بوڑھی تھیں مگر جیسے تیسے گھر کا کام کرلیتی تھی۔کیونکہ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ اور کھانا وغیرہ بھی نہیں بنا سکتی تھی۔ ان کے یہاں آنے سے ابّا بھی بے فکر ہوگئے اور ان کو بھی سر چھپانے کا ٹھکانہ مل گیا۔ وقت آگے بڑھنے لگا۔

 

میں نے دسویں کا امتحان پاس کیا تو تعلیم کا سلسلہ ختم ہوگیا ۔

کیونکہ اس وقت وہاں لڑکیوں کا کوئی کالج نہیں تھا۔ نہ ہی زیادہ تعلیم عام تھی۔ حمیدہ پھوپھو مجھ کو گھر داری سکھانے لگیں۔ محلّے میں میری چند ہم عمر سہیلیاں تھیں کبھی وہ میری طرف آجائیں اور کبھی میں ان سے ملنے چلی جاتی۔ پرانا زمانہ تھا۔ نہ ٹی وی تھا نہ فلم نہ ہی بازاروں کے چکر لگتے تھے۔

رسالے بھی کبھی کبھار نصیب ہوئے تھے ۔ کسی قسم کا کوئی ٹائم پاس نہیں تھا ۔ میری کوئی بہن بھی نہیں تھی۔ امّاں کا بھی انتقال ہوچکا تھا ۔

 

راشد بھائی ابّا کے ساتھ دکان میں بیٹھتے تھے ۔ صبح کے نکلے دوپہر کو صر ف کھانے کے وقت تھوڑی دیر کو آتے پھر نکلتے تو شام کی خبر لیتے ۔

 

عشاء کی نماز پڑھتے ہی سوجانے کا رواج عام تھا ۔

میری فطرت اور میری اٹھان اس ماحول کے سخت خلاف جارہی تھی۔

میں جیسے جیسے بڑی ہورہی تھی میرے اندر جیسے پارہ بھرنے لگا تھا ۔

 

ایک پیر صحن میں ہوتا تو دوسرا چھت پر کبھی ایک سہیلی کے گھر تو کبھی دوسری سہیلی کے۔ اکثر وہ میری گھر میں جمع ہوتیں کیونکہ یہاں روکنے توکنے والا کوئی نہ تھا۔ ابّا اور راشد بھائی دکان میں ہوتے تو حمیدہ پھوپھو تو بچاری کہیں گنتی میں نہ تھیں۔ وہ اب کم سنتی تھیں۔ اور ان کو دکھائی بھی کم دینے لگا تھا ۔

 

ہم سہیلیاں آپس میں خوب مزے کرتیں ۔ کہانیاں سناتیں اس وقت کے حساب جو چند میک اب کی چیزیں میسر تھیں۔ ان سے میک اپ کئے جاتے، ریڈیو پر گانے لگتے۔ الٹے سیدھے دانس کے نام پر ہاتھ پیر مارے جاتے اکثر ہماری گفتگو کا سلسلہ پر اسرار تہہ خانے اس سے متصل سیتا مندر پر جا نکلتا اور پھر اور من گھڑت باتیں کہاں سے کہاان جا نکلتیں ۔

 

میں اپنی سہیلیوں میں سب سے خوبصورت تھی۔ بلکہ سہیلیوں میں کیا میں تو شاید اس وقت شہر میں ہی سب سے زیادہ خوبصورت تھی ۔

 

اس بات کا اندازہ مجھے خوب تھا جو مجھے دیکھتا۔ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ اس ہر نوجوانوں میں حد سے زیازہ نڈر بھی تھی۔ شام کو تو کیا مجھے رات میں بھی کبھی ڈر نہیں لگتا آرام سے اندھیری گلیوں میں سے گزرتی اپنی سہیلیوں کے گھر چلی جاتی۔ ماں تو نہیں کہ برے بھلے کی تمیز بتائی۔ ایسے ہی نہ جانے کیسے، کس طرح جمشید سے دوستی ہوگئی۔ جمشید میری گلی میں ہی رہتا تھا۔ وہ راشد بھائی کا دوست تھا، یا نہ جانے اس نے میری وجہ سے دوستی کی تھی۔ وہ اکثر ان سے ملنے آجاتا تو ہم ایک دوسرے کو دیکھ لیتے پھر ان کی غیر موجودگی میں آنے لگا رفتہ رفتہ یہ کچی دوستی پیار میں بدل گئی۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے بغیر چین نہ آتا۔ میں نے جمشید کے متعلق کسی کو نہیں بتایا تھا ۔یہاں تک کے اپنی سہیلیوں تک کو نہیں۔ کیونکہ اس وقت یہ پیار اور دوستی جو آج کل بالکل عام ہے۔ سخت برا سمجھا جاتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ میری سہیلیاں مجھے ان باتوں سے منع کریں گی یا پھر مجھ سے ملنا ہی ترک کر دیں گی۔

 

اس لئے ہم چھپ چھپ کرملتے تھے۔ اور ملاقاتوں کے لئے میرا گھر تو آئیڈیل تھا۔ اباّ اور بھائی ہوتے نہیں تھے, حمیدہ پھوپھو کام سے فارغ ہوکر دوپہر میں اتنا لمباسوتیں کہ شام میں اٹھانا مشکل ہوجاتا تھا۔ اسے میں جمشید چپکے سے میرے گھر میں آجاتا اور پھر ہم ہوئے اور ہماری لمبی لمبی باتیں۔ یہ نہیں تھا جمشید کوئی بدفطرت بدمعاش لڑکا تھا۔ وہ راشد بھائی کی طرح سیدھا سادا شریف تھا ۔ میں کم عمری کی محبت کب کچھ سوچتی ہے۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ اس کو اس طرح ملنا پسند نہیں ہے۔ اور جلد وہ میری امّی کو میرے رشتے کے لئے بھیجے گا۔ بس اس کی بڑی بہن کی شادی ہوجائے یا ان کا کہیں رشتہ طے ہوجائے۔ مگر ایسا کبھی نہ ہو سکا ایک دن ابّا معمول کے مطابق دکان جانے کے لیئے تیار  ہونے لگے تو چکرا کر بیٹھ گئے میں ان کو ناشتہ دے رہی تھی۔

کیا ہو ابّا ؟ میں نے گھبرا کر پوچھا ۔

آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے؟

 

’‘ کچھ نہیں بیٹا ‘‘ انہوں نے جواب دیا ۔‘‘ رات کو ٹھیک سے سو نہیں پایا ۔شاید اس کا اثر ہے۔آپ اج دکان نہ جائیں ۔ آرام کریں۔

راشد بھائی نے بھی کہا مگر ابا نے ہماری ایک نہ سنی اور دونوں دکان چلے گئے ۔ میں ان کے جانے کے بعد گھر کے کاموں میں لگ گئی ۔

 

کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی اور میرے اندازے کے مطابق جمشید باہر کھڑا تھا ۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر اگیا ۔

 

میں اس کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگئی کیونکہ وہ کہیں دنوں سے نہیں ملا تھا اور ہماری کوئی بات نہیں ہوسکی تھی ۔حمیدہ پھوپھو جب معمول سو چکی تھیں۔ میں جمشید کو اپنے کمرے میں لے آئی۔ اور ہم آہستہ باتوں میں مشغول ہوگئے تھے۔

 

کہ اچانک ۔۔۔ تیز دستک نے مجھے چونکا دیا ۔ اس وقت ۔۔۔ اس وقت کون ہو سکتا ہے ؟ میں جمشید کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے

 

دروازے کی طرف آئی۔ سے جھانکتے ہی میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔

 

راشد بھائی فکر مند چہرہ لیئے دروازے پر کھڑے تھے اور ابّا پیچھے تانگے میں تقریباً لیٹے ہوئے تھے ۔ ’’یااللہ ۔۔۔ اب کیا کروں ‘‘ میں گھبراہٹ سے پاگل ہوگئی۔

 

جلدی سے جمشید کو ساری صورتِ حال بتائی ۔ وہ بھی میر ی طرح ڈر گیا ۔کیا کروں۔۔؟ کوئی راستہ دوسرا موجود نہیں تھا جہاں سے جمشید کو باہر نکال دیتی چھت موجود تھی کسی باؤنڈری ان کے بغیر ۔ وہاں موجود انسان نیچے والوں کو صاف نظر آجاتا۔

 

با ہر سے راشد بھائی مستقل دروازہ بجاررہے تھے۔

سخت گھبراہٹ میں ایک خیال میرے ذہن میں ٹکرایا۔

کانپتے ہاتھوں سے میں نے تہہ خانہ کی کنڈی کھولی ۔

 

’’ دیکھو بس جمشید بس تھوڑی دیر ۔۔جیسے ہی ماحول سازگار ہوگا میں تمہیں نکال لوں گی‘‘ میں اپنی جلدی میں تھی کہ میں نے جمشید کے تاثرات تک نہیں دیکھے بس اندر دھکیل کر باہر سے کنڈی لگادی۔

 

’’ وہ میں غسل خانہ میں تھی ‘‘۔ راشد بھائی کے پوچھنے پر میں نے بتایا ۔

 

ابا کو کیا ہوا ہے؟

 

’’پتا نہیں دکان پر اچانک گر گئے ‘‘۔ انہوں نے بتایا ۔ وہ اور تانگے والا ابّا کو اٹھا کر اندر لے آئے اور بستر پر لٹا دیا ۔

 

’’ میں حکیم صاحب کو لے کر آتا ہوں‘‘۔ وہ باہر نکل گئے۔

شکر ہے‘‘ میں تیزی سے اندر کی ظرف مڑی ہی تھی کی کہ دروازے سے گلی کے دو حضرات اندر آگئے۔ ابّا کے پاس کمرے میں بیٹھ گئے۔

 

’’اف‘ ‘ میری سانس رک گئی ۔ اب تو جمشید کو جلدی نکالنا نا ناممکن تھا۔

 

وہ سارا دن گزرگیا ۔ راشد بھائی حکیم کو لے کر آئے ابّا کو دوا دی گئی ۔پھر وہ ابّا کے پاس ہی بیٹھ گئے ۔

 

حمیدہ پھوپھو بھی اٹھ گئیں ۔ پورے گھر میں چہل پہل تھی۔ درحقیقت میر سینے میں سانس گھٹ رہی تھی ۔ جس تہہ خانہ میں چند منٹ نہ گزارے جاسکتے تھے وہاں اتنے گھنٹے ۔۔۔؟

 

خدا خدا کر کے شام ہوگئی پھر رات۔۔۔

 

ابّا کو کھانا کھلا کر سلادیا۔ راشد بھائی سارے دن کے تھکے ہوئے ۔

بیٹھتے ہی سوگئے ۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا ۔

اور پھر ۔۔۔ چپکے سے اپنے کمرے سے نکل آئی ۔

میرے ہاتھ میں موم بتی تھی۔ اس زمانے میں پورے گھر میں چند ہی بلب ہوتے تھے ۔

’’ تہہ خانہ میں تو دن میں روشنی نہ ہوتی تھی۔ اس وقت تو تہہ خانہ کا کیا عالم ہوگا ؟‘‘

 

ان خوفناک خیالوں میں گھر ی میں آہستہ آہستہ تہہ خانہ کی طرف بڑھ رہی تھی ۔

 

’’ بے چارہ خوف کے مارے بے ہوش نہ ہوگیا ہو ‘‘۔۔۔ میں نے سوچا۔

آہستہ سے میں نے تہہ خانے کی زنگ آلود کنڈی کھولی ۔

 

’’ جمشید ۔۔۔جمشید۔۔۔ جلدی آؤ۔۔۔ باہر ۔۔۔‘‘ میں نے آواز دی ۔

 

مگر میری آواز تہہ خانے کی دیواروں سے ٹکراکر واپس آگئی ۔

’’ جمشید ۔۔۔‘‘ میں نے ذرا تیز پکارہ۔

میں نے آگے بڑھ کر موم بتی کی روشنی میں نیچے جھانکا۔

 

ایک۔ دو ۔ تین ۔ اور پھر نیچے تک ساری سیڑھیاں خالی پڑی تھیں ۔

’’ جمشید ۔۔۔ میری آواز کاپنے لگی ۔ میں ہمت کر کے سیڑھیاں اترنے لگی ۔ اور پہلی مرتبہ رات کے اس وقت اکیلی آخری سیڑھی تک

 

چلی گئی ۔ میرا پاؤ ں پانی سے ٹکرا گیا ۔

 

وہاں کوئی نہیں تھا ۔ تہہ خانہ بالکل خالی تھا ۔

’’ کیسے ؟ کہا ں ‘‘؟ میرا دماغ پھٹنے لگا ۔ میں نے اپنے ہاتھ سے کنڈی لاگئی اور پھر کھو لی ۔ تو پھر ۔۔۔؟

’’جمشید ‘‘ میں وہیں بیٹھ کر رونے لگی ۔ ’’تم کہاں ہو۔۔؟

 

’’ جمشید ‘‘۔۔۔ آنسوں میری آنکھو ں سے بہہ رہے تھے ۔

 

’’ اوھ ‘‘ میں چونک گئی ۔

 

میں نے آنسوں پونچھے اگر کوئی کمرے میں آگیا میرا بیٹا یا بہو تو اس وقت رونے کا کیا سبب بتاؤں گی ۔

 

۴۰ سال گزرگئے ۔ وہ بھیانک ، پر اسرار واقعہ اس طرح ، پوری طرح مجھے یا د ہے مجھے اکثر تڑپاتا ہے۔

 

جمشید کا اس دن کے بعد کہیں کوئی پتہ نہ چلا ۔ اس کی امّی اس کے گھر والے اس کی گم شدگی جیسے پاگل ہوگئے تھے ۔

 

پاگل تو میں بھی ہوگئی تھی ۔ مگر میں اپنا دکھ کسی سے نہیں سکتی تھی ۔ اکثر گھر والوں کی محدم موجودگی میں تہہ خانے کا دروازہ کھول کر جمشید کو پکارتی

 

مگر کبھی کوئی جواب نہ آیا۔

 

ہاں لیکن۔۔۔ اکثر خواب میں مجھے جمشید جواب دیتا ۔

 

’’ ہاہید ‘‘ ۔۔۔ اس کی آواز ، اُس کی آواز کرب میں ڈوبی ہوتی۔ ہمیشہ ، اس کی آواز میں سخت تکلیف ہوتی ۔

 

اس کی تکلیف میں ڈوبی آواز نے مجھے کبھی سکون سے نہ رہنے دیا ۔ میری اس واقع کے چند سال بعد شادی ہوگئی ۔

خدا نے مجھے اولا د کی نعمت سے بھی نوازا ۔ شوہر بھی بہت اچھے ملے مگر ایک شدید کسک نے مجھے تمام عمر چین نہ لینے دیا ۔

 

ابّا کے انتقال کے چند سالوں بعد راشد بھائی نے اچھے علاقے میں دوسرا گھر لے لیا اور اس میں شفٹ ہوگئے

میں شادی کے بعد دوسرے شہر آگئی۔ پھر کبھی اس گھر اور اس منحوس تہہ خانے کو دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا ۔

 

مگر ۔۔۔ نظر تو مجھے وہ اکثر آتا ہے نیند میں ۔ اسی طرح ، اتنا ہی بلکہ اس کی کہیں زیادہ پر اسرار ۔۔۔

 

"تہہ خانے ایک شدید غلطی کی یہ سزا کب ختم ہوگیَ؟"


تہہ خانہ تہہ خانہ Reviewed by A Rehman on August 30, 2022 Rating: 5

No comments:

Disqus Shortname

designcart
Powered by Blogger.