خوبصورت چڑیل




2009 کی اِک سرد رات تھی میں اور میری وائف زلیخا سو رہے تھے رات کے 1 بجے میرے دوست یامین کی کال آئی

ہیلو علی مُجھے بچا لو یہ مجھے مار ڈالے گی

میں بہت حیران ہوا کہ اس کو کیا ہوا مجھے لگا شاید یہ مذاق کر رہا میں کہا یار یہ بھی کوئی وقت ہے مذاق کا


نہیں علی اللہ کا واسطہ مجھے بچا لے. اس بار اس کی آواز میں عجیب سا خوف تھا

میں آتا ہوں میں ابھی یہ کہا ہی تھا کہ کال کٹ گئی . میں خود ڈر گیا تھا

میں فٹ اٹھا زلیخا کو اٹھایا اور اپنی گن ساتھ لی.

کیا ہوا علی اتنے پریشان کیوں ہو؟ زلیخا نے اٹھتے ساتھ سوال کیا

 

یار آپ دروازہ بند کرو میں یامین کے گھر جا رہا اس کی کال آئی وہ بہت پریشان تھا.

اللہ خیر کرے آپ آرام سے جانا اپنا خیال رکھنا رات بہت ہو گئی ہے. زلیخا نے گھبراتے ہوئے کہا.

Ok don't worry

میں زلیخا کو دلاسہ دے کر جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کی اور یامین کے گھر نکل پڑا



 

یامین میرا بچپن کا دوست تھا 2 ہفتے پہلے اُسکی شادی وانیا

 سے ہوئی تھی اور بہت خوش تھا وہ آج اچانک ایسا کیا ہو گیا اور اِسے کون مارنا چاہتا ہے میں ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ اتنے میں یامین کا گھر آ گیا

یامین کا گھر شہر سے تھوڑا باہر تھا بڑے قبرستان کے قریب

میں فٹا فٹ گاڑی سے اترا اور یامین کے گھر کا گیٹ نوک کیا

یامین یامین میں زور سے پکارا لیکن کوئی جواب نہ آیا گھر میں مکمل طور پر خاموشی تھی

میں بھاگ کر گھر کے پیچھے کی طرف گیا. وہاں کھڑکی کھلی ہوئی تھی. وہاں خون کے تازہ نشان تھے. میں کھڑکی سے اندر داخل ہوا. لائٹ آف تھی

میں نے موبائل کی لائٹ ان کی اوور یامین کے کمرے کی طرف جانے لگا

یامین کے کمرے میں جاتے ہی میرے منہ سے چیخ نکل گئی

میرے اوسان خطا ہو گئے

بیڈ کے پاس زمین پہ یامین خون میں لت پت پڑا تھا

میں نے چیک کیا تو وہ مر چکا تھا. اور بھابھی کا نام و نشان بھی نہیں تھا.:

کمرے سے کھڑکی تک خون کے دھبوں کے نشان تھے جو ننگے پیروں کے تھے

میں نے فوراً اپنے دوست مسعود کو کال کی جُو پولیس میں تھا اور اسے صورت حال سے آگاہ کیا

اس نے مجھے حوصلہ رکھنے اور جتنی جلدی ہو سکا میرے پاس آنے کا یقیں دلایا

میں نے سوچا کہ پیروں کے نشانات کا پیچھا کیا جائے میں موبائل ٹارچ کی روشنی میں میں نشانات کا پیچھا کرنے لگا نشانات پیچھلی گلی سے ہوتے ہوئے قبرستان کی طرف جا رہے تھے رات کے اندھیرے نے قبرستان کو بہت وحشت ناک بنا دیا تھا میں ابھی قبرستان کے گیٹ کے قریب ہی پہنچا تھا کہ مسعود کی کال آ گئ

ہیلو علی کہاں ہو میں یامین کے گھر پر ہوں مسعود نے کہا

یار میں گھر کے پچھلی طرف قبرستان کے پاس ہوں. میں نے جوIب دیا

اوکے میں آیا مسعود نے کہا اور کال کاٹ دی

چند لمحوں بعد مسعود میرے پاس آگیا

علی یار بہت افسوس ہوا مگر تم یہاں کیا کر رہے ہو مسعود نے آتے سوال کیا

میں ان نشانات کے پیچھے آیا

تھینکس یار فوراً میرے پاس آنے کے لئے میں نے مسعود کو کہا

It's my Pleasure

یامین کا کوئی دشمن تھا اور بھابھی کہاں ہے کچھ پتہ چلا ان کا

 مسعود نے پوچھا

نہیں یار وہ تو اِک شریف انسان تھا اور بھابھی کا بھی کچھ پتہ نہیں چلا میں نے کہا

چلو نشانات کا پیچھا کیا جائے میں نے ایمبولینس کو کال کی ہے وہ آتی ہی ہوگی

مسعود نے کہا

اور ہم نشانات کے پیچھے قبرستان میں داخل ہو گئے نشانات اِک درخت کے پاس آ کر ختم ہو گئے یار نشانات تو یہاں آ کر ختم ہو گئے مسعود نے کہا

چلو درخت کے پیچھے دیکھتے ھیں میں نے کہا

ہم درخت کے پیچھے گئے

درخت کے پیچھے قبر کے پاس کا منظر دیکھ کر ہم خوفزدہ ہو گئے ہم نے جو سوچا بھی نہ تھا وہ ہو گیا......

وہ یامین کی وائف وانیا تھی جو قبر کے پاس بے ہوش پڑی تھی اس کے پیر خون سے بھرے ہوئے تھے.​

او مائی گاڈ اسکا مطلب یامین کا خون بھابھی نے کیا؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا!

دیکھ کر تو مجھے بھی یہی لگتا ہے مسعود نے میری ہاں میں ہاں ملائی

چلو اسکو ہسپتال لے کر چلتے ہیں میں نے کہا

مسعود نے فوراً ایمبولینس منگوائی اور میں گھر آ گیا.

کیا ہوا یامین بھائی کیسے ہیں

میرے گھر پہنچتے ہی زلیخا نَے بے چینی سے پوچھا

وہ یامین اب اس دنیا میں نہیں رہا میں نے افسردہ لہجہ میں کہا

او مائی گاڈ یہ کیسے ہوا زلیخا نے پریشانی کے عالم میں کہا

میں نے زلیخا کو ساری بات بتا دی

اوہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے زلیخا نے کہا

اچھا میں تھوڑا آرام کر لوں اور بیڈ پر لیٹ گیا سونے کی کوشش کر نے لگا مگر نیند کوسوں دور تھی

میری آنکھ صبح دس بجے کھلی میں فریش ہو کر ناشتے والی ٹیبل پر ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھا ہی تھا مسعود کی کال آئی یار   تم سے بھابھی کے بارے میں کچھ بات کرنی ہے تھانے آ سکتےہو؟

بھابھی کو ہوش آیا میں نے جھٹ سے سوال کیا

نہیں یار ابھی بھابھی کو ہوش تو نہیں آیا لیکن کچھ ضروری بات کرنی ہے مسعود نے کہا

اوکے میں ناشتہ کر کے آتا ہوں یہ کہہ کر میں نے کال کاٹ دی اور جلدی سے ناشتہ کرنے لگا

کچھ ہی دیر کے بعد میں مسعود کے تھانے پہنچ چکا تھا اسلام علیکم کیا حال ہے یار میں نے تھانے کے اندر جاتے ہوئے مسعود کو کہا وعلیکم السلام آو یار تم سے کچھ ضروری معلومات لینی ہے بھابھی کے بارے میں کیوں کیا ہوا بھابی کو میں نے تجسس بھری نظروں میں مسعود کو دیکھتے ہوئے سوال کیا ؟




بھابی کی بیک گراؤنڈ کے بارے میں جاننا ہے کہاں سے ہیں کیا کرتی ہیں اور کس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں؟ مسعود نےسوال کیا

مجھے تو صرف اتنا پتا ہے کہ بھابھی کے آگے پیچھے کوئی بھی نہیں ہے اور ان کی فیملی میں صرف ان کا چاچا ہے ان کے ماں باپ کسی کار ایکسیڈنٹ میں گزر گئے تھے میں نے بتایا

یار سارا معاملہ دیکھ کر شک بھابھی پر ھی جاتا اور

میں اس معاملے کی بہت اچھے سے چھان بین کر رہا ہوں اگر کہیں سے بھی کوئی سراغ ملا تو میں تمہیں ضرور بتاؤں گا مسعود نے جواب میں کہا

میں نے مسعود کو خدا حافظ کہا اور اپنے آفس کے لئے نکل پڑا مجھ میں غم اور پریشانی کہ ملے جلے تاثرات تھے اور مجھے بار بار یامین کا اور بھابھی کا ہی خیال آ رہا تھا کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا ہوگا

رات کے گیارہ بج رہے تھے کھانے کے بعد زلیخا سے یامین اور بھابھی کے بارے میں بات کر رہا تھا کے اچانک مسعود کی کال آئی

ہیلو علی کہاں پر ہو جلدی آؤ

کیوں کیا ہوا میں نے پریشانی کے عالم میں مسعود سے پوچھا تم آؤ تو سہی میں تمہیں بتاتا ہوں یا مین اور بھابھی کے کیس کے بارے میں بہت اہم پیشرفت ہوئی ہے اوکے میں آتا ہوں تمہارے پاس یہ کہہ کر میں فورا اپنے بیڈ سے اٹھا

کیا ہوا کس کا فون تھا زلیخا نے سوال کیا؟

انسپیکٹر مسعود کا فون تھا بھابھی اور یامین کے بارے میں بہت اہم پیشرفت ہوئی ہے اس لئے مجھے اس نے مجھے کال کی

اچھا ٹھیک اللہ خیر کرے اپنا خیال رکھیے گا زلیخا نے کہا..

تم فکر مت کرو دروازہ لاک کر لو یہ کہہ کر میں فورا باہر آیا گاڑی سٹارٹ کی اور مسعود کے گھر چل پڑا

جب میں مسعود کے گھر پہنچا تو مسعود پہلے ہی دروازے کے پاس میرا انتظار کر رہا تھا

میں نے گاڑی پارک کی اور مسعود سے علیک سلیک کے بعد ہم اس کی بیٹھک میں چلے گئے

علیشبہ علی کے لئے کچھ ٹھنڈا لے کر آؤ ہمارے بیٹھ جانے کے بعد مسعود نے اپنی وائف کو آواز دی

ہاں تو مسعود اس کیس میں ایسی کیا پیشترفت ہوئی ہے جسکے بارے میں بتانے کے لئے تم نے مجھے اتنی رات کو کال کی میں نے بے چینی سے پوچھا

یار علی ہمارے جانے کے کچھ دیر بعد گاؤں والے تھانے سے کال آئی۔اسنے کچھ معلوم کرنا تھا وہاں کا تھانے دار میرا کزن ہے بات چیت کے دوران جب میں نے اسے یامین کے کیس کے بارے میں بتایا تو وہ چونک گیا اور کہنے لگا بالکل ایک ایسا ہی ایک کیس تین مہینے پہلے اس کے گاؤں میں پیش آیا۔

جو بندہ اس گاؤں میں قتل ہوا اس کی شادی کو بھی ابھی بمشکل دو ہفتے ہی ہوئے تھے اور وہ وہاں ابھی ایسے ہی خون کے دھبوں کے نشانات پائے گئے لیکن وہاں سے ہمیں کوئی سراغ نہیں مل سکا میں یہ سن کر فورا اسکے پاس گیا

اور اپنے کزن کے ساتھ مل کر آج سارا دن انویسٹی گیشن میں ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ پچھلے تین سال میں ایسے دس واقعات ہو چکے ہیں

 

جس میں شادی کے دو ہفتے کے بعد خاوند کی لاش ملتی ہے اور وہاں پر ایسے ہی خون کے دھبوں کے نشانات پائے جاتے ہیں یہ سن کر میں چونک سا گیا اور مجھ پر ایک وحشت سی طاری ہوگئی

 

اسلام علیکم علی بھائی کیسے ہیں آپ علیشبہ بھابھی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا؟

اللہ کا شکر ہے بھابھی میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں بچے کیسے ہیں اور آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟

 میں نے جواب میں کہا

اللہ کا شکر ہے بھائی سب ٹھیک ہے آپ لوگ آرام سے باتیں کریں میں بچوں کو سلا کے آتی ہوں بھابھی یہ کہہ کر کمرے سے چلی گئی۔

مسعود کی اس بات نے مجھے بہت چونکا دیا تھا مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے

اصل میں جو پچھلے واقعات ہوئے ہیں ان میں اور یامین کے واقعے میں کوئی بھی فرق نہیں ہے ان کا گھر بھی آبادی سے تھوڑے فاصلے پر قبرستان کے پاس تھا اور ان کی شادی بھی یکایک ہی ہوئی مسعود نے مزید بتایا

لیکن یار اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ وانیہ بھابھی ہی تھی میں نے پوچھا

میں اس بار ثبوت لے کے ہی آیا ہوں یہ کہہ کر مسعود نے اپنا موبائل نکالا اور مجھے تصویر دکھائی

میں اور میرا کزن یہ تصویر لے کر ان جگہوں پر گئے تھے جہاں پر یہ واقعات ہوئے ہیں اور وہاں پر رہنے والے سب لوگوں نے ہی اس تصویر کو پہچان لیا اور ہر گاؤں میں اس کا نام الگ تھا میرے کزن کے گاؤں میں اس کا نام ثانیہ جبکہ اس سے پچھلے گاؤں میں اس نے اپنا نام عائشہ بتایا تھا

میرا دماغ اس ٹائم سن ہو چکا تھا اور مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کے بھابھی ایسا بھی کر سکتی ہیں

کل صبح ہم ہاسپٹل چلیں گے اور وہاں پر جا کر دیکھیں گے مسعود نے کہا

میں نے پریشانی اور حیرانی سے ملے جلے تاثرات میں مسعود سے اجازت لی اور اپنے گھر آگیا

سارے راستے میں میں یہی سوچتا رہا میرے ذہن نے بہت سے سوالوں کو جنم لیا تھا

گھر پہنچ کر جب میں نے زلیخا کو ان سب باتوں کے بارے میں بتایا تو وہ اس پر یقین کرنے کے لئے بالکل بھی تیار نہ تھی۔

 

وانیا بھابھی تو شکل سے بے حد معصوم اور شریف تھی اور وہ تو بہت ہی فرمابردار تھی وہ ایسا بالکل بھی نہیں کرسکتی یقینا مسعود بھائی کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے زلیخا نے کہا

نہیں یار اس بار تو مسعود کے پاس پکے ثبوت ہیں اور انہوں نے اس کے بعد ہی مجھے بلا کر ان سب باتوں کے بارے میں بتایا اور میں اس وقت شدید حیران ہوں اب کل جا کر ہم ہاسپیٹل میں باقی ساری باتوں کا پتہ لگائیں گے

جیسے تیسے کرکے میں نے یہ رات گزاری صبح سویرے ہی میں مسعود کے گھر گیا اور اس کو ساتھ لیا اور ہم ہسپتال پہنچے

ڈاکٹر صاحب کیا وانیہ کو ہوش آیا مسعود نے پوچھا وہ بالکل ٹھیک ہے اور ہمیں امید ہے ان کو 24 گھنٹوں تک ہوش آجائے گا ڈاکٹر نے کہا

یار مجھے تو یہ بات کچھ گڑبڑ لگتی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم کسی بابا جی سے اس بارے میں بات کریں میں نے مسعود کو کہا

ٹھیک ہے میں لیڈی کانسٹیبل کو چھوڑ جاتا ہوں اور پھر ہم چلتے ہیں میرے جاننے والے ایک بابا جی ہیں

"بابا ثاقب جی"مسعود نے کہا

لیڈی کانسٹیبل کے آجانے کے بعد ہم نے اس کو بھابی کے پاس

چھوڑا اور گاڑی لے کر پیر صاحب کے پاس نکل پڑے

جب ہم وہاں پہنچے تو بابا جی نماز پڑھ رہے تھے ہم نے بھی وضو کیا اور وہاں پر نماز ادا کی

نماز ادا کرنے کے بعد ہم بابا جی کے پاس گئے اور سلام دعا کرنے کے بعد انہیں سارا واقعہ بتا یا

بابا جی نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کی اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگے اس کے بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں اور کہاں یہ کیا معاملہ ہے جاؤ جا کے پتہ لگاؤ پھر وہ ہم سے مخاطب ہوئے

میں نے موکل کو بھیجا ہے تھوڑی دیر انتظار کریں اس کے بعد سارے معاملے کا پتہ چل جائے گا

یہ کہنے کے بعد باباجی عمل میں مصروف ہوگئے اور میں اور مسعود وہاں سے باہر آگئے ہم نے سوچا کہ کچھ کھا لیا جائے

ہم اپنے ساتھ برگر اور بوتل لے کر آئے تھے وہ کھانا شروع کر دیا ابھی ہم باتوں میں مصروف ہی تھے کہ اچانک مسعود کو ہاسپٹل سے ڈاکٹر کی کال آئی

ہیلو سر ایک بری خبر ہے ڈاکٹر نے گھبرائی ہوئی آواز میں مسعود سے بات کی

کیا ہوا ڈاکٹر سب خیریت تو ہے وانیا ٹھیک تو ہیں

سر وہ لیڈی کانسٹیبل کو مار کر یہاں سے بھاگ گئی ہے اور لیڈی کانسٹیبل کے جسم میں خون کا قطرہ بھی نہیں ہے

اوہ مائی گاڈ یہ یہ کیسے ہوا آپ نے تو کہا تھا کہ اس کو کم ازکم 24 گھنٹے کے بعد ہوش آئے گا مسعود نے ڈاکٹر صاحب کو کہا

سر میری بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کیسے ہوگیا ان کی حالت کے مطابق ان کو کم ازکم 24 گھنٹے سے پہلے ہوش میں آنا ناممکن تھا لیکن یہ سب کیسے ہوا کسی کو نہیں پتا ڈاکٹر نے ڈری ہوئی آواز میں کہا

اوکے میں کچھ دیر میں پہنچتا ہوں یہ کہہ کر مسعود نے کال کٹ کر دیں

کیا ہوا میں نے مسعود کو پریشانی کے عالم میں دیکھ کر پوچھا

یار وانیا وہاں سے لیڈی کانسٹیبل کو مار کر بھاگ گئی ہے ڈاکٹر صاحب کا فون آیا تھا

اوہ خدایا کتنی بری خبر ہے نہ جانے ابھی کتنے معصوم لوگوں کی جان جاۓ گی میں نے پریشانی کہ عالم میں کہاں

چلو بابا جی کے پاس چلتے ہیں مسعود نے کہا اور ہم وہاں سے بابا جی کے پاس چلے گئے

آؤ بچو میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا بابا جی نے کہا

میں نے پتہ لگا لیا ہے اس کے پیچھے اس چڑیل کا ہاتھ ہے جو کہ آدھی چڑیل اور آدھی عورت ہے۔۔ یہ انسان اور چڑیل کے ملاپ سے پیدا ہوئی ہے آج سے کچھ سال پہلے اس چڑیل کو ہندو پنڈت نے چلا کاٹ کر اپنے قبضہ میں کیا تھا لیکن بعد میں وہ چڑیل اس کو اچھی لگنے لگی کیونکہ وہ شکل سے خوبصورت اور معصوم تھی چڑیل سے اس وعدے کے ساتھ کہ وہ اپنی شکتییوں کا استعمال نہیں کرے گی کہہ کر دونوں نے شادی کرلی اس کے بعد ان کے ملاپ سے یہ بچی پیدا ہوئی

اس بچی کے پیدا ہونے کے چند سال بعد اس کے ماں باپ گزر گئے اس کے بعد اس کے چچا نے اس کو پالا

جیسے جیسے یہ جوان ہوتی گئی ویسے ویسے اس سے چڑیل کے آثار نمودار ہونے لگے اس کا چاچا اس بات سے ناواقف ہے یہ شادی کرتی ہے تو شادی کرنے کے کچھ دنوں کے بعد اپنے خاوند کا خون پی کر اپنی پیاس بجھاتی ہے اور ہفتوں غائب رہتی ہے پھر کچھ دنوں کے انتظار کے بعد اپنے دوسرے شکار کی تلاش میں نکل پڑتی ہے




تو اس کا چاچا بار بار اس کی شادی کیوں کروا دیتا ہے میں نے بھرے انداز میں بابا جی سے پوچھا۔

جب وہ اپنے خاوند کو مار کر بھاگ جاتی ہے تو اس کے بعد اس کا چچا ہفتوں پولیس تھانوں کے چکر لگاتا ہے کچھ ہفتوں کے بعد وہ پھر اپنی بھولی سی صورت لے کر واپس آ جاتی ہے یہ بھی اپنی ماں کی طرح خوبصورت معصوم اور چلاک ہے اور لوگ اس کی باتوں میں آجاتے ہیں اس کا انداز انتہائی معصومانہ ہوتا ہے اور ہر بار کوئی نئی کہانی سناتی ہے جس کی وجہ سے کسی کو شک بھی نہیں ہوتا اس کا چاچا پچھلا گاؤں چھوڑ کر آیا تھا کیوں کے چھ شادیوں کے بعد گاؤں والوں نے اس کو منہوس سمجھ کر ان کو گاؤں سے نکال دیا تھا

لیکن اس بار یہ کیسے پکڑی گئی میں نے بابا جی سے سوال کیا

جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ یہ چڑیل ہونے کے ساتھ ساتھ انسان بھی ہے جب یہ اپنا شکار کر کے بھاگ رہی تھی تو بھاگتے بھاگتے تھک گئی اور اندھیرا زیادہ ہونے کی وجہ سے درخت سے ٹکرا کر بےہوش ہوگئیں اور اس کے پکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کے تمہارے دوست نے کچھ لمحے پہلے ہی تمہیں فون کر دیا تھا بابا جی نے کہا

ہاں بابا جی اس کا فون آتے ہیں میں فورا گھر سے نکل پڑا تھا اور اس کے گھر سے میرے گھر کا فاصلہ بھی بہت تھوڑا ہے میں بہت جلد وہاں پر پہنچ گیا تھا میں نے کہا

اب اس کو سزا دینی ہے یا پھر ہمیشہ کے لئے مارنا ہے باباجی نے کہا

کیا اس پر گولی اثر کرے گی مسعود نے کہا۔

ہاں کرے گی لیکن گولی سے اس کی موت واقع نہیں ہوگی گولیاں صرف اسے زخمی کر سکتی ہے وہ بھی تب تک جب تک یہ عام انسان ہے چڑیل کے روپ میں آتے ہیں اس کا وہ زخم بھی بھر جائے گا بابا جی نے کہا۔

 

 

نہ جانے اس نے کتنے معصوم لوگوں کی جان لی ہے خاص طور پر میرے دوست یامین کی




اس کو میں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا آپ مجھے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ جس سے میں اسے ختم کر دو میں نے غصے میں کہا. ٹھیک ہے تو میں تمہیں طریقہ بتاتا ہوں باباجی نے کہا یہ لو ستو کے دانے قبرستان میں کسی پرانی سی ایسی قبر جس کے پاس درخت ہو وہاں پر بیٹھ کر ان دانوں پر چلا کرنا ہےاور ایک بات اچھے سے یاد رکھنا کچھ بھی ہو جائے چاہے میں تمہیں بلاوں یا تمہارا دوستی یامین کی روح آئے اور کہے کہ علی عمل چھوڑ دو میں نے اسے معاف کر دیا یا چاہے مسعود آئے یا بیشک تمہاری بیوی تمہارے پاس آ جائے باہر نہیں نکلنا اور نہ ہی اپنا عمل چھوڑنا ہے دن میں سارا دن کسی سے بات نہیں کرنی اور عشاء کاٹائم ہوتے ہی تم نے اپنا عمل شروع کر دینا ہے جب تک فجر کی اذان تمہارے کانوں میں نہ پڑے تم نے عمل نہیں چھوڑنا بہتر یہی ہوگا کہ تم اپنے کام سے چھٹی لے لویہ کہنے کے بعد بابا جی نے مجھے وہ عمل بتایا جو چلے میں پڑھنا ہے بابا جی سے دعا لے کر میں وہاں سے رخصت ہوگیا اب میرا ارادہ جلد از جلد اس چڑیل کو اپنے انجام پر پہنچانا تھا یار علی تم یہ عمل ٹھیک سے کر لوگے نا مسعود نے راستے میں مجھ سے پوچھا انشاءاللہ ضرور کروں گا مجھے ان سب معصوموں اور خصوصا بالخصوص اپنے دوست کی موت کا بدلہ لینا ہے چاہے جو بھی ہو جائے میں اسے اپنے انجام پر پہنچا کر رہوں گا میں نے اسے جواب دیا

 

گھر پہنچنے کے بعد میں نے زلیخا کو ساری بات بتائ اور اسے دلاسا دیا کہ پریشان مت ہونا میں اپنے دوست کی موت کا بدلہ لے کر ہی چین سے بیٹھونگا یہ رات بھی بے چینی میں گزری صبح اٹھ کر میں نے سب سے پہلے دفتر سے جاکر آٹھ چھٹیاں لے لی کیونکہ سات دن کا چلّا تھا اور اس کے بعد مجھے ایک دن آرام کے لیے بھی چاہیے تھا

 

اس کے بعد میں نےاپنا ضروری سامان لیا مسعود سے ملا اور پھر بابا جی سے اجازت لینے کے بعد گھر گیا اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا رات کو عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد میں قبرستان پہنچ گیا جو کے یامین کے گھر کے پاس تھا کیوں کہ وہ ہی سب سے بڑا اور پرانا قبرستان تھا سب تھوڑی سی محنت کے بعد مجھے وہ پرانی قبر مل ہی گئی جو کہ ایک درخت کے پاس تھی تین مرتبہ آیت الکرسی پڑھ کر حصار کھینچا اور بیٹھ کر اپنا عمل کرنے لگا بغیر کسی فکر اور پریشانی کے یہ رات سکون سے گزر گئی اس کے بعد اپنا عمل جاری رکھا اور چار دنوں تک مجھے کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی میں اپنا عمل کرتا اور گھر آ جاتا صبح کو اپنی نیند پوری کرتا جبکہ رات میں عمل کرتاکرتا یہ عمل کی چوتھی رات تھی میں نے روزمرہ کی طرح حسار کھینچ کر عمل شروع خردیا تھوڑی بعد اچانک بہت سارے بادل ایک دم آگئے اور بادل زور سے گرجے شدید بارش ہونے لگی اور یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی یہ عام بارش نہیں بلکہ خون کی بارش تھی یہ جو کہ میرے حسار سے باہر ہو رہی تھی حسار کے اندر ایک قطرہ بھی نہیں گرا تھا میں کافی ڈر سا گیا تھا اللہ اللہ کر کے وہ رات گزری میں گھر آگیا پانچویں رات بھی بغیر کسی پریشانی کے گزر گئی

آج عمل کی چھٹی رات تھی

 

میں نے حسب معمول حسار کھینچا اور اپنا عمل شروع کر دیا۔ ابھی مجھے عمل کئے ہوئے تین گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کے سامنے قبر کے پاس جھاڑیوں میں کسی کی آہٹ محسوس ہوئی وہ کوئی جانور تھا جو یکایک میرے سامنے آگیا اس جانور کو دیکھ کر یوں لگا جیسے ابھی میرا دل باہر آجائے گا خوف کے مارے آنکھیں پھٹ گئیں تھیں اور میرا جسم کانپ رہا تھا اس جانور کے دو منہ تھے ایک بھیڑیے کے جیسا ایک چیتے کے جیسا اور دونوں کی لمبی سانپ کی طرح زبان تھی

 

وہ میرے پاس آیا اور حسار کے پاس آکر کہنے لگا چلے جاؤ یہاں سے ورنہ بہت بری موت مارے جاؤ گےاس کی آواز اس قدر خوفناک تھی کہ میں اپنا عمل بھی بھول گیا تھا اور میرے منہ سے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی میں نے جیسے تیسے کرکے اپنے حواس پر قابو کیا اور زور سے اپنا عمل پڑھنے لگا مجھے زور سے عمل کرتا دیکھ کر وہ زور دار آواز میں گر جا اچھا تو تم باز نہیں آؤ گے میں تمہیں ابھی بتاتا ہوں یہ کہہ کر وہ میری طرف دوڑا لیکن حسار سے ٹکرا کر غائب ہو گیا جیسے ہی وہ غائب ہوا میری جان میں جان آئی اللہ اللہ کر کے یہ رات بھی گزری لیکن اس واقعے کے بعد مجھ پر بہت زیادہ خوف طاری تھا

 

اس جانور کو دیکھ کر ایک مرتبہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گۓ تھے میں گھر آیا کھانا کھایا

اور لیٹ گیا تھکاوٹ کی وجہ مجھے فوراً نیند آگئی اگلے دن عصر کے وقت میری آنکھ کھلی میں نے نماز پڑھی اور کھانا کھایا اور چلے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا آج کا دن میرے لئے بہت اہم تھا قبرستان کے پاس موجود مسجد میں میں نے عشاء کی نماز ادا کی آج موسم بڑا صاف تھا چاند اپنے جوبن پر تھا جس کی وجہ سے ارد گرد ی ہر چیز صاف نظر آرہی تھی میں نے اپنا عمل شروع کیا دل اور ذہن میں بہت خوف تھا لیکن مجھ میں بدلا لینے کا جنون سوار تھا ابھی عمل کو ایک دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ دور سے مسعود آتا دکھائی دیا اور کہنے لگا کہ میں نے وانیہ کو مار دیا ہے چلو آجاؤ اٹھو میرے ذہن میں بابا جی کی بات یاد آگی تھی کہ وانیہ چڑیل ہر روپ میں آئے گی اسلیے میں آنکھیں بند کر کے اپنے عمل میں مصروف رہا چلو یار اٹھو کیا کر رہے ہو یہ کہہ کر اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اس کا ہاتھ جیسے ہی حسار سے ٹکرایا وہ ایک دم غائب ہوگیا میں نے اللہ کا شکر ادا کیا...




 

کچھ ہی دیر کے بعد دور سے وانیہ بھابھی آتی دکھائی دی اور میرے پاس آکر زاروقطار ر رونے لگی پلیز علی بھائی مجھے معاف کردو میں نے جو کچھ کیا انجانے میں کیا اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے مجھ سے کہنے لگی لیکن میں اپنے عمل میں مصروف رہا اور میں نے اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہ دیا اور وہ وہاں سے چلی گئی عمل ختم ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی کہ قبرستان میں زور سے زلزلہ آنے لگا ساری قبریں پھٹنے لگیں اور قبروں میں سے مردے اٹھ کر باہر آنے لگے جس قبر پر میں عمل کر رہا تھا وہ قبر بھی لرزنے لگی اور اس کے اندر سے بھی عجیب و غریب سی آوازیں آنے لگیں خوف اور دہشت سے میرا برا حال تھا اتنے میں سامنے وانیا دکھائی دی اور ساتھ میں باباجی بھی تھے بابا جی کہنے لگے کہ چھوڑو ہم سب نے اس کو معاف کر دیا ہے اور مجھے پیچھے یامین بھی کھڑا ہوا نظر آیا یامین بھی کہنے لگا کہ ہم سب نے اس کو معاف کر دیا ہے تم اپنا عمل چھوڑو اور وہاں سے اٹھ جاؤ میں وہاں سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں بابا جی کی آواز آئی علی یہ سب نظروں کا دھوکا ہے تم اپنے عمل پر توجہ دو میں سوچنے لگا کہ میں یہ کیا بے قوفی کرنے لگا تھا میں دوبارہ بیٹھ گیا اور اپنا عمل کرنا شروع کردیا وانیا کی صورت تبدیل ہونے لگی تھی اور وہ آہستہ آہستہ چڑیل کی صورت اختیار کر چکی تھی اس کا چہرہ انتہائی بھیانک تھا وہ زور سے گرجی یہاں سے فورا اٹھ جاؤ ورنہ میں تمہیں اور تمہارے خاندان کو مار دوں گی

 

میں نے اس کی بات پر توجہ نہ دی اچانک وہ میری وائف زلیخا کو پکڑ کے لے آئی اور س کی گردن پر اپنے دانت گاڑ کر بولی اگر تم نے عمل نہ چھوڑا تو میں اس کو مار دوں گی

زلیخا زور سے چلائی پلیز علی مجھے بچا لو یہ مجھے مار ڈالے گی پلیز علی

 مجھے پتا تھا کہ یہ سب نظروں کا دھوکا ہے چناچہ میں نے آنکھیں بند کیں اور زور زور سے عمل پڑھنے لگا اب وہاں سے زلیخا باباجی یامین اور مسعود غائب ہو چکے تھے صرف وہ مردے اور وانیا وہاں پر کھڑے تھے انہوں نے مردوں کے ساتھ مل کر مجھ پر پتھروں کی بارش کردی لیکن جو بھی پتھر حسار سے ٹکراتا وہیں پر بھسم ہو جاتا جس قبر پر میں عمل کرنے لگا تھا وہ بھی اب زور سے ہلنے لگی تھی ڈر اور دہشت کے مارے میرا برا حال تھا میں نے آنکھیں بند کر کے اپنے اللہ سے مدد کی فریاد کی اور زور زور سے عمل پڑھنے لگا اتنے میں مجھے دور سے اذانوں کی آواز آئی میں نے آنکھیں کھولیں تو باہر وانیا کا جسم جل رہا تھا اور دور سے مجھے زلیخا مسعود علیشبا اور باباجی آتے دکھائی دیے ان سب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور انہوں نے مجھے مبارکباد دی وانیا کا جسم جل کر اب راکھ بن چکا تھا مسعود نے اس راکھ کو پاس ہی موجود گڑھے میں ڈال کر گڑھے کو بند کر دیا تھا آج میں بہت خوش تھا کیونکہ میں نے بہت سے معصوم لوگوں اور اپنے دوست کا بدلہ لے لیا تھا۔

 



خوبصورت چڑیل خوبصورت چڑیل   Reviewed by A Rehman on August 03, 2022 Rating: 5

No comments:

Disqus Shortname

designcart
Powered by Blogger.